”قیدیوں
کے مسائل اسلامی نقطہٴ نظر سے“
از: مولانا اختر امام
عادل قاسمی ، جامعہ ربانی منوروا شریف
آج دنیا میں انسانوں کے درمیان
جو طبقاتی تقسیم اور ان کے درمیان حقوق کی ناہمواری
پائی جاتی ہے اس کی ایک بدترین مثال انسانوں کا وہ
طبقہ ہے جو اپنے بعض حالات کی بناء پر قیدخانہ کی سلاخوں کے پیچھے
زندگی گذارنے پر مجبور ہے، اس کے بالمقابل اسلام کے عادلانہ نظام میں
انسانی تمام طبقات کے لئے مثالی توازن و ہم آہنگی اور ان کے
حقوق و جذبات کی ہرممکن رعایت پائی جاتی ہے۔
اسلام نے اپنی تمام تعلیمات میں
قیدیوں کے ساتھ عام انسانی احترام میں کوئی کمی
نہیں کی، اسلامی نقطئہ نظر سے ہر انسان ماں کے پیٹ سے
آزاد پیدا ہوا ہے اس لئے اس کو اپنے حقوق کے معاملے میں پوری
آزادی ملنی چاہئے۔ البتہ انسان کبھی ایسی
سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتا ہے، جو عام انسانی اجتماع کے لئے ضرر
رساں ثابت ہوتی ہیں ایسے موقعہ پر عام انسانی مفادات کے
تحفظ کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ اس شخص کی سرگرمیوں کو محدود کیاجائے،
یا اس پر مکمل بندش عائد کردی جائے، اسی کے لئے قید کی
ضرورت پڑتی ہے، حضرت نبی کریم صلى الله عليه وسلم اور حضرت صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ کے عہد میں کوئی باقاعدہ قید خانہ یا
جیل کا نظام نہیں تھا، اور نہ کبھی باضابطہ حضور صلى الله عليه
وسلم نے کسی کے لئے قید کی
سزا تجویز فرمائی۔ (اقضیة رسول اللہ صلى الله عليه وسلم
لابن فرح/۱۱، تبصرة الحکام لابن فرحون،
الموسوعة ۱۶/۲۸۴)
صرف تحقیق حال کے لئے بعض ملزمین
کو وقتی طور پر قید کا حکم فرمایا، مثلاً:
ایک مرتبہ قبیلہ بنوغفار کے دو
شخص حضور صلى الله عليه وسلم کے حضور پیش کیے گئے، ان پر دو اونٹوں کی
چوری کا الزام تھا، حضور صلى الله عليه وسلم نے ایک کو روک لیا
اور دوسرے کو اونٹ تلاش کرنے کا حکم دیا، بالآخر وہ دوسرا شخص دونوں اونٹ لے
کر دربار نبوت میں واپس ہوا اور پھر دونوں کی رہائی عمل میں
آئی۔ (مصنف عبدالرزاق ۱۰/۲۱۶-۲۱۷)
قید کا نظام
عہد فاروقی سے اس کا آغاز ہوا اور
ضرورت کے تحت قید خانہ کا نظام رائج کیاگیا، حضرت عمر فاروق رضى
الله تعالى عنه کے حکم پر مکہ کے گورنر نافع بن عبدالحارث نے اس غرض سے چار ہزار (۴۰۰۰) درہم میں
صفوان بن امیہ کا مکان خریدا، اسی طرح حضرت علی نے کوفہ میں
باقاعدہ قیدخانہ قائم کیا۔ (المبسوط ۲۰/۸۹، الطرق الحکمیہ ۱۰۳، الموسوعة ۱۶/۳۱۶)
نیز حضرت ابوموسیٰ اشعری
رضى الله تعالى عنه نے کوفہ میں اور حضرت عبداللہ بن زبیررضى الله
تعالى عنه نے مکہ مکرمہ میں اپنے اپنے عہد حکومت میں قیدخانہ
قائم فرمایا۔ (تفسیر خازن ۲/۷۱، زاد لمعاد ۲/۷۴، الموسوعة ۱۶/۲۸۶)
پھر بعد کے ادوار میں تمام ہی
مسلم حکمرانوں نے اس نظام کو باقی رکھا، اور اسلامی قاضیوں نے
مختلف جرائم میں قید کی سزا تجویز فرمائی - لیکن
یہ سب محض وقتی اور ناگزیر ضرورت کے تحت گوارا کیاگیا،
اسی لئے قید کے کسی مرحلے پر بھی انسانی احترام کو
نظر انداز نہیں کیاگیا، اسلام نے قیدیوں کے ساتھ
مراعات اور حسن سلوک کی تعلیم دی، اور ہرحال میں اس پہلو
پر دھیان مرکوز رکھا کہ وہ بھی تمہاری طرح انسان ہیں، ان
کے پاس بھی ضروریات اور تقاضے ہیں اور وہ بھی جذبہ واحساس
رکھتے ہیں، اور کل وہ بھی تمہاری طرح آزاد تھے، حالات زمانہ نے
ان کو اس حال تک پہنچادیا ہے، اس لئے ان کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کرو۔
قیدیوں کے لئے اسلامی
ہدایات
غزوہ بدر میں فتح کے بعد جنگی قیدی
حضور صلى الله عليه وسلم کے سامنے پیش کیے گئے تو زبان نبوت سے جو
جملہ صادر ہوا وہ قیدیوں اور کمزور طبقہ کے لیے نبوت کا سب سے
بڑا عطیہ ہے، حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
یا
ایہا الناس ان اللّٰہ قد امکنکم وانما ہم اخوانکم بالامس (مجمع
الزوائد۱/۸۷)
ترجمہ: اے لوگو! اللہ نے آج تم کو ان پر
قدرت دی ہے اور کل یہ تمہارے بھائی تھے۔
قرآن کریم میں قیدیوں
کے ساتھ حسن سلوک کرنا ابرار اور مقربین کی صفت قرار دیاگیا:
ویطعمون
الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما واسیرا (سورہ دہر:۸)
ترجمہ: اور یہ لوگ پوری محبت و
خلوص کے ساتھ مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے
ہیں۔
حضور صلى الله عليه وسلم نے یہ ہدایت
فرمائی:
استوصوا
بالاساری خیرا (طبرانی کبیر بحوالہ سیرة المصطفیٰ
۱/۵۷۹، مولانا ادریس کاندھلوی)
ترجمہ: قیدیوں کے ساتھ حسن
سلوک کی وصیت قبول کرو۔
غلام جیسے کمزور طبقہ کے بارے میں
فرمایا:
فاطعمہ
مما تاکلون واکسوہ مما تکسون (احمدوابوداؤد، مشکوٰة ۲۹۲)
ترجمہ: جو خود کھاتے ہو ان کوکھلاؤ اور جو
خود پہنتے ہو ان کو پہناؤ۔
ان کی عزت نفس کا بھی پورا
لحاظ فرمایا، اور ارشاد فرمایا:
لاتقل
عبدی ولا امتی ولکن قل فتائی وفتاتی (مجمع الزوائد۶/۸۷)
ترجمہ: غلام اور باندی کہہ کر ان کو
مت پکارو بلکہ اے میرے بیٹے اور ایے میری بیٹی
کہہ کر آواز دو۔
انہی تعلیمات کا اثر تھا کہ
عہد اوّل میں جن مسلمانوں کے پاس قیدی تھے وہ اوّل کھانا قیدیوں
کو کھلاتے اور بعد میں خود کھاتے اوراگر کھانا نہ بچتا تو خود کھجور پر اکتفاء
کرلیتے۔
حضرت مصعب بن عمیر کے حقیقی
بھائی ابوعزیز بن عمر بھی ایک بار قید ہوکر آئے وہ
بیان کرتے ہیں کہ میں انصار کے جس گھر میں تھا ان کا یہ
حال تھا کہ صبح و شام جو تھوڑی بہت روٹی بنتی وہ مجھ کوکھلادیتے
اور خود کھجور کھاتے، میں شرماتا اور ہر چند اصرار کرتاکہ روٹی آپ لوگ
کھائیں لیکن نہ مانتے اور یہ کہتے کہ رسول اللہ صلى الله عليه
وسلم نے ہم کو قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔
(مجمع الزوائد ۶/۸۶)
(دعویٰ) الزام عائد کرنے کا
ضابطہ
غرض اسلام ہر انسان کی شخصی
آزادی اوراحترام کو بہت اہمیت دیتا ہے، اور کسی کو یہ
اجازت نہیں دیتا ہے کہ کسی کی آزادی و عزت نفس کو
نقصان پہنچائے، اسی لیے شریعت اسلامیہ اس کی اجازت
نہیں دیتی کہ خواہ مخواہ کسی پر الزام لگاکر اس کی
حیثیت کو مجروح کیا جائے، اور نہ اسلامی عدالت اس کی
مجاز ہے کہ محض الزام کی بنا پر کسی کو مجرم قرار دے، الزام لگانے کے
لیے ضابطہ مقرر کیاگیا کہ
البینة
علی المدّعی والیمین علی من انکر (متفق علیہ:
نصب الرایہ ۴/۹۵)
ترجمہ: ”دعوی پیش کرنے والے کی
ذمہ داری ہے کہ وہ ثبوت فراہم کرے بصورتِ دیگر منکر سے قسم لے کر اس
کو بری قرار دیا جائے گا۔“
بلکہ بعض صورتوں میں تو ثبوت فراہم
نہ کرنے کی صورت میں خود مدعی کو مجرم قرار دیا جاتا ہے،
اوراس کو بے بنیاد الزام لگانے کے جرم میں سزا دی جاتی
ہے، مثلاً کوئی شخص کسی پر ”زنا“ کا الزام لگائے اوراس کو اصول کے
مطابق ثابت نہ کرسکے، تو خود الزام لگانے والے پر حد قذف عائد کی جاتی
ہے، اس سے تعزیرات کے باب میں اسلام کے تصورِ جرم کا پتہ چلتا ہے کہ
”جرم“ صرف وہ ہے جس کو ثابت کردیا جائے۔ اور جو ثابت نہ ہوسکے وہ صرف
”الزام“ ہے۔
ملزم کو قید کرنے کا مسئلہ
محض الزام کی بناء پر کسی پر
سزانافذ نہیں کی جاسکتی، البتہ کبھی ایسی
صورت پیش آسکتی ہے جس میں الزام کی تنقیح اور ثبوت
کی فراہمی میں تھوڑا وقت لگ سکتا ہے، اس درمیانی
مدت میں ملزم کے ساتھ کیا سلوک کیاجائے؟ جبکہ وہ ابھی
مجرم نہیں ہے، لیکن تنقیح دعویٰ تک کیا اس کو
”قید“ میں رکھا جاسکتا ہے؟ اس باب میں فقہاء کی آراء
مختلف ہیں۔
(۱) قاضی
شریح، امام ابویوسف،اور امام الحرمین کی رائے میں
مکمل ثبوت کے بغیر محض الزام کی بنا پر کسی کو قیدنہیں
کیاجاسکتا، قاضی شریح نے ایک مالی معاملہ میں
ماخوذ ملزم کو ثبوت نہ ملنے کی صورت میں محض قسم لے کر بری کردیاتھا۔
(تبصرة الحکام ۱/۴۰۷)
امام ابویوسف اس طرح کی صورت میں
زیادہ سے زیادہ کسی معتبر ضمانت دار کا مطالبہ کرتے ہیں،
ضمانت مل جانے کی صورت میں ملزم کو اپنے گھر جانے کی اجازت ہے۔
(کتاب الخراج ۱۹۰،۱۹۱)
اس سلسلے میں ایک واقعہ حضرت
عمر بن الخطاب کا نقل کیا جاتاہے کہ ان کے پاس ایک ملزم گرفتار کرکے
لایاگیا،اور ثبوت فراہم نہ ہوسکا تو آپ نے اس کو چھوڑدیا۔
(المحلی لابن حزم ۱۱/۱۳۱، مصنف
عبدالرزاق ۱۰/۲۱۷)
(۲) بعض
فقہاء حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کی رائے یہ ہے کہ جن
مقدمات میں ثبوت جرم کے بعد قید ہی کی سزا مقرر ہے، مثلاً
مالی معاملات، ان میں مکمل ثبوت کی فراہمی کے بغیر
ملزم کو قید میں رکھنا درست نہیں ہے۔
سحنون وغیرہ کی رائے یہ
ہے کہ جن مقدمات کی سزا قید نہیں ہے مثلاً حدود و قصاص کے
معاملات، ان میں عدالتی کارروائی مکمل ہونے تک ملزم کو قید
میں رکھا جاسکتا ہے۔ (حاشیہ القلیوبی۴/۳۰۶، درمختار مع رد
المحتار ۴/۴۰، ۵/۲۹۹، العنایہ
للباہرتی ۵/۴۰۱، المغنی
لابن قدامہ ۹/۳۲۸)
(۳) جمہور
فقہاء کی رائے یہ ہے کہ اگر ملزم کوئی معروف اور نیک شخص
ہو، اور اس کی ذاتی زندگی غیرمشتبہ اور صاف ستھری
سمجھی جاتی ہو، تو ایسے شخص کو بلاثبوت قید کرنا یا
سزا دینا درست نہیں، البتہ مستورالحال شخص کو تحقیق حال تک قید
کرنا درست ہے، یا ملزم کوئی مشتبہ شخص ہو اور اس طرح کے الزامات اس پر
لگتے رہے ہوں تو اس کو بھی قید کرنا درست بلکہ نسبتاً بہتر ہے۔
(حاشیہ ابن عابدین ۴/۸۸، حاشیہ
الدسوقی ۳/۲۷۹، الاحکام السلطانیہ
للماوردی ۲۱۹، المغنی
لابن قدامہ ۹/۳۲۸ بحوالہ الموسوعة ۱۶/۲۹۲)
قید کا ثبوت
جمہور کی بنیاد درج ذیل
آیات واحادیث ہیں:
* قرآن کریم
میں ارشاد ہے:
وتحبسونہما
من بعد الصلوة فیقسمان باللّٰہ (مائدة:۱۰۶)
ترجمہ: ان کو قید کرو نماز کے بعد،
پھر وہ اللہ کی قسم کھائیں۔
اس میں ادائے حق تک قید کرنے
کا جواز ملتا ہے۔
* اسی طرح ایک
حدیث جس کا ذکر اس سے قبل آچکا ہے کہ ”دربار نبوت میں قبیلہ
بنوغفار کے دو شخص دو اونٹوں کی چوری کے الزام میں پکڑکر لائے
گئے، آپ نے دونوں میں سے ایک کو اپنے پاس روک لیا، اور دوسرے کو
اونٹ حاضر کرنے کا حکم دیا، بالآخر وہ شخص گیا اور دونوں اونٹ لے کر
حاضر ہوا۔ (مصنف عبدالرزاق ۱۰/۲۱۶،۲۱۷،
مطبوعہ مجلس علمی ڈابھیل)
نیز روایت ہے کہ واقعہ خیبر
کے بعد ابن ابی الحقیق کو دربار نبوت میں پیش کیاگیا،
اس پر ایک خزانہ کو چھپانے کا الزام تھا، جبکہ اس کا دعویٰ تھا
کہ خزانہ خرچ ہوچکا ہے، مگر نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس شبہ کی
بنا پر اس کا دعویٰ رد کردیا کہ ابھی جنگ کو بہت دن نہیں
ہوئے، اور مال بہت زیادہ تھا۔ (العہد قریب والمال اکثر) اور آپ
نے تحقیق حال تک اس کو قید رکھنے کا حکم دیا، اور حضرت زبیر
بن عوام رضى الله تعالى عنه کو ملزم کے احتساب اور پوچھ گچھ پر مامور فرمایا،
حضرت زبیررضى الله تعالى عنه کی تھوڑی سی تادیبی
کارروائی کے بعد ہی اس نے خزانہ کی نشاندہی کردی۔
(ثم امر الزبیر ان یمسہ بعذاب حتی ظہر الکنز) (ابوداؤد ۳/۴۰۸، تحقیق عزت
عبید دعاس، فتح الباری ۵/۳۲۸
مطبوعہ السلفیہ تبصرة الحکام ۲/۱۱۴)
* حضرت علی
کرم اللہ وجہہ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ نے دو ملزموں کو اقرار تک قید
کرنے کا حکم دیا۔ (تبصرة الحکام ۲/۱۴۰)
ان احادیث و آثار سے ظاہر ہوتا ہے کہ
جمہور فقہاء کا موقف اس سلسلے میں زیادہ مضبوط ہے۔ نیز یہ
بات قرین قیاس بھی ہے، اس لیے کہ ملزم بعض حالات میں
اپنے برے انجام سے بچنے کے لیے راہ فرار اختیار کرسکتا ہے، اور اس طرح
عدالتی کاروائی تعطل کا شکار ہوسکتی ہے، نیز یہ بھی
ممکن ہے کہ ملزم کے باہر رہنے کی صورت میں مدعی کی طرف سے
اسے کسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑے، اس لیے ملزم اور مدعی
دونوں کے لیے محفوظ صورت یہ ہے کہ ملزم کو حراست میں رکھا جائے،
اور عدالتی کاروائی مکمل ہونے تک اس کی حفاظت کا انتظام کیا
جائے۔ البتہ ملزم اگر معروف اور غیرمشتبہ شخص ہو، اس کے فرار ہونے کا
اندیشہ نہ ہو اور نہ اس کی ذاتی حفاظت کا کوئی خطرہ ہو،
تو عدالت اس پر اعتماد کرسکتی ہے، اسی طرح اس کا لحاظ بھی ضروری
ہے کہ مشتبہ ملزم جس کو عدالت کاروائی مکمل ہونے تک قید کرنے کا حکم
دے گی وہ قید خانہ میں عام شہری کی طرح زندگی
گذارے گا اور اس کو کسی قسم کی ذہنی یا جسمانی اذیت
نہیں دی جائے گی۔
قید کی مدت
اکثر فقہاء کی رائے یہ ہے کہ
مشتبہ ملزم کے لیے قید کی کوئی مدت مقرر نہیں ہے، یہ
حاکم کی صوابدید اور متعلقہ حالات پر موقوف ہے، جتنے دنوں میں
صورت حال منقح ہوجائے، اتنے دنوں تک قیدمیں رکھنے کی گنجائش ہے،
علامہ ابن تیمیہ نے اس قول کو امام مالک، امام احمد اور محققین
حنفیہ کی طرف منسوب کیاہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ
۳۵/۳۹۷، حاشیہ
ابن عابدین ۴/۸۸)
جبکہ مالکیہ کی یہ تصریح
بھی ملتی ہے کہ مستورالحال کو لمبے عرصہ تک قید میں نہیں
رکھا جاسکتا، لمبے عرصہ کا اطلاق ان کے نزدیک ایک سال سے زائد پر ہوتا
ہے۔ (تبصرة الحکام ۱/۲۶۶،
بحوالہ الموسوعة ۱۶/۲۹۴)
بعض فقہاء کا خیال ہے کہ مستورالحال
ملزم کو ایک دن سے زیادہ قید نہیں کیا جاسکتا، کچھ
لوگوں نے دو تین دن مقرر کیاہے، اور بعض نے اس کو وسعت دے کر ایک
ماہ تک کی اجازت دی ہے۔ (حاشیہ ابن عابدین ۴/۸۸، تبصرة الحکام ۲/۱۴۸، المغنی
لابن قدامہ ۹/۳۲۸)
مگر حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ
اور حنابلہ کا ظاہر مذہب وہی ہے جو اوپر مذکورہوا کہ مدت کی کوئی
تحدید نہیں کی جاسکتی، متعلقہ حالات اور حاکم کی
رائے پر منحصر ہے، حضرت عمر بن عبدالعزیز کی بھی یہی
رائے نقل کی جاتی ہے۔ (الاحکام السلطانیہ للماوردی ۲۲۰)
* ایسے لوگ
جن پر کسی قسم کا الزام تو نہ ہو، مگر ان سے مفاد عامہ کو نقصان پہنچنے کا
اندیشہ ہو، ایسے لوگوں کو بھی نظربند یا قید کرنے کی
فقہاء نے اجازت دی ہے، فقہاء نے اس کی مثال میں ان لوگوں کا ذکر
کیا ہے جن کی نظر لگتی ہو۔ (حاشیہ ابن عابدین
۶/۳۶۴، حاشیہ
القلیوبی ۴/۱۶۲، فتح
الباری ۱۰/۲۰۵)
* اسی طرح ایسے
مجرمین جن کا جرم ثابت ہوچکا ہو، اور عدالت نے ان کو قابل سزا قرار دیا
ہو، مگر بیماری یا کسی اور سبب سے متعلقہ سزا ان پر جاری
نہ کی جاسکتی ہو تو سبب کے خاتمہ تک ان کو قید میں رکھنے
کی اجازت ہے، بشرطیکہ مجرم ایساہو جس کے فرار کا اندیشہ
ہو، بصورت دیگر اس کو آزاد رکھ کر سبب کے خاتمہ کا انتظار کیا جائے گا۔
(درمختار مع رد المحتار ۴/۱۶،
المدونہ ۵/۲۰۶)
*
* *
قیدیوں کے حقوق
جن ملزمین پر جرم ثابت ہوجائے
اورعدالت ان کے لیے سزائے قیدکا فیصلہ سنادے، ان کو سزا کے
طورپر قیدخانہ میں رکھا جائے گا، مگر عام حالات میں ان کو عام
انسانی حقوق سے محروم نہیں کیاجائے گا، اور ان کی بنیادی
ضروریات کا پورا لحاظ رکھا جائے گا، فقہاء اسلام نے پوری تفصیل
کے ساتھ ان امور پر روشنی ڈالی ہے، مثلاً:
(الف)
: ”مذہبی امور“
قیدیوں کو ان کے مذہبی
امور میں مکمل آزادی حاصل ہوگی، وہ اپنے مذہب کے مطابق عبادت وغیرہ
انجام دے سکیں گے، ان کے مذہب کے مطابق ان کو غذا فراہم کی جائے گی،
فقہاء نے صراحت کی ہے کہ مسلم قیدیوں کو وضو اور نماز وغیرہ
سے روکنا درست نہیں ہے۔ (درمختار مع ردالمحتار ۵/۳۷۸، ۳۷۹، حاشیہ
القلیوبی ۴/۲۰۵)
اگر جمعہ اور عیدین کا انتظام
قیدخانہ میں ہو، اور شرائط جمعہ بھی موجود ہوں تو قیدیوں
کو قیدخانہ ہی میں جمعہ و عیدین کی اجازت ہوگی،
حنفیہ کے کلام سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ قیدیوں کے لیے
جمعہ کی اجازت ہے، اوراگر جمعہ کا انتظام نہ ہو، تو قیدی تنہا
تنہا ظہر ادا کریں گے۔ (ہدایہ ۱/۶۳، المبسوط ۲/۳۶)
بعض حنابلہ کی رائے یہ ہے کہ قید
خانہ میں جمعہ وعیدین کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں
قیدیوں کو باہر نکلنے کی اجازت ہوگی، شافعیہ میں
بغوی رحمة الله عليه اور بوبطی، اور حنفیہ میں سرخسی
کی بھی یہی رائے معلوم ہوتی ہے۔ (الموسوعة
الفقہیہ ۱۶/۳۲۱
بحوالہ غایة المنتہی للکرخی ۱/۲۰۶، روضہ الطالبین ۴/۱۴۰)
مگر مذاہب اربعہ کے جمہور فقہاء کی
رائے یہ ہے کہ جمعہ وعیدین کے لیے قیدیوں کو
باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے، البتہ اگر بعض قیدیوں کے لیے
حاکم اس میں مضائقہ نہ سمجھے تو حرج نہیں۔ (الموسوعة الفقہیہ
۱۶/۳۲۱
بحوالہ حاشیہ ابن عابدین ۵/۳۷۷،
المبسوط ۲۰/۹۰، المغنی ۲/۳۳۹ وغیرہا)
ظاہر ہے کہ اس عموم میں ان کی
مذہبی کتابوں کا احترام بھی شامل ہے، اس لیے کہ قید کا
مقصد تادیب واصلاح ہے، توہین آمیز یا اشتعال انگیز
سلوک کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی، اس لیے کہ اس سے رد عمل کی
نفسیات جنم لیتی ہیں، اور اصلاح کا مقصد پورا نہیں
ہوتا۔
رہا دوسرے قیدیوں کے درمیان
دعوت دین کا کام؛ تو یہ حاکم کی صوابدید پر موقوف ہونا
چاہئے اس لیے کہ دعوت اس کی بنیادی یا مذہبی
ضروریات میں شامل نہیں ہے، نیز دعوتی کام کبھی
قیدیوں میں گروپ بندی بھی پیدا کرسکتی
ہے، اور داعی قیدی اس طرح قوت بھی حاصل کرسکتا ہے، اس لیے
اس کی اجازت حاکم کی رائے پر منحصر ہوگی، داعی قیدی
کے شخصی حالات اگر مثبت محسوس ہوں تو حاکم اس کو دعوتی کام کی
اجازت دے سکتا ہے ورنہ نہیں۔
(ب): ”جسمانی ضروریات“
قیدیوں کی جسمانی
ضروریات اور بنیادی راحت و آرام کا لحاظ رکھنا بھی لازم
ہے، مثلاً: مناسب غذا اور پینے کا صاف ستھرا پانی فراہم کیا
جائے گا، حفظان صحت کے لیے اگر ورزش و تفریح کی ضرورت ہوتو اس کی
اجازت ہوگی، ایسی تنگ جگہوں میں قیدیوں کو
رکھنا درست نہیں ہے، جہاں ہوا اور روشنی کا گذر نہ ہو، یا جہاں
کھڑا ہونا یا پاؤں پھیلاکر لیٹنا ممکن نہ ہو، جہاں گھٹن کا
احساس ہو، یا ایسی جگہ پر رکھنا جہاں دھواں بھرا ہوا ہو، یا
سخت گرم یا سخت ٹھنڈے مکان میں جہاں زندگی دشوار ہو، یا
کھلے آسمان کے نیچے جہاں گرمی یا سردی سے جسم بیمار
پڑجائے، ایسی جگہوں پر قیدیوں کو رکھنے کی اجازت نہیں
ہے، فقہاء نے صراحت کی ہے کہ اگر کسی قیدی کو ایسے
تنگ مقامات پر رکھا گیا، یا غذا اور پانی کا معقول انتظام نہیں
کیاگیا، اور وہ مرگیا، تو اس کی دیت اس شخص کے ذمہ
لازم ہے جس کی لاپرواہی سے قیدی کا یہ انجام ہوا
ہے، بلکہ بعض فقہاء نے تو قصاص کو واجب کیاہے۔ (الاحکام السلطانیہ
للماوردی ۲۳۹، حاشیہ ابن
عابدین ۲/۴۲۱، فتاویٰ
ہندیہ ۳/۴۱۴، الموسوعة ۱۶/۳۲۷)
”طبی سہولیات“
طبی سہولیات بھی قیدیوں
کو فراہم کی جائیں گی، اور اگر جیل میں یہ
سہولتیں میسر نہ ہوں تو شافعیہ اور مالکیہ ان کو جیل
سے باہر لے جانے کی اجازت دیتے ہیں، البتہ مفتی بہ قول میں
حنفیہ یہ قید لگاتے ہیں کہ بیمار قیدیوں
کو باہر لے جانے کے لیے معتبر ضمانت شرط ہے، مسلم خلفاء اور حکمرانوں کا
تعامل اس باب میں شروع سے یہی رہا کہ قیدیوں کی
جسمانی صحت اور طبی سہولیات کی طرف پوری توجہ دی
گئی، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے باقاعدہ ایک فرمان کے ذریعہ
مملکت کے تمام افسروں کو اس کی طرف خصوصی طور پر توجہ دلائی تھی،
خلیفہ مقتدر کے زمانہ میں ڈاکٹروں کی خصوصی خدمات بیمار
قیدیوں کے لیے حاصل کی گئی تھیں اور دوا علاج
کا پورا نظام بنایاگیا تھا یہ ڈاکٹر ہر روز قیدخانہ پہنچ
کر قیدیوں کا معائنہ کرتے اور علاج تجویز کرتے تھے۔ (حاشیہ
ابن عابدین ۵/۳۷۸، فتاویٰ
ہندیہ ۴/۴۱۸، شرح ادب القاضی
للخصاف ۲/۳۷۵، حاشیہ
القلیوبی ۲/۲۹۲،
طبقات ابن سعد ۵/۳۵۶، الموسوعة ۱۶/۳۲۱)
بیوی سے تعلق کے سلسلے میں
فقہاء کی آرا مختلف ہیں:
(۱) ایک رائے جس کو اکثر حنفیہ نے
اختیار کیا ہے، اورحنابلہ کا مذہب بھی یہی ہے کہ قیدی
کو بیوی سے ملنے کی اجازت دی جائے گی بشرطیکہ
تنہائی کی ایسی جگہ وہاں میسر ہو، اس لیے کہ
پیٹ کی طرح شرمگاہ کی بھوک بھی ایک ضرورت ہے، اس لیے
اس ضرورت سے اس کو روکا نہیں جائیگا۔ (المغنی ۷/۳۴،۳۵، ہدایہ
۳/۲۳۱، فتح القدیر
۵/۴۷۱، فتاویٰ
ہندیہ ۳/۲۱۸)
(۲) دوسری
رائے جس کو مالکیہ کا مذہب کہا گیا ہے، بیوی سے تنہائی
میں ملنے کی اجازت نہیں ہوگی اس لیے کہ جنسی
تعلق کھانے کی طرح حوائج اصلیہ میں شامل نہیں ہے، نیز
اس طرح کی لذتوں سے روکنے سے قیدی کی دل شکنی ہوگی،اور
وہ اپنے اصلاح حال کی طرف زیادہ تیزی کے ساتھ توجہ دے گا۔
(الشرح الکبیر..... ۳/۲۸۱،
تبصرة الحکام ۲/۲۰۵، الموسوعة الفقہیہ
۱۶/۳۲۴)
(۳) اور
بعض شوافع کی رائے ہے کہ یہ بھی حاکم کی صوابدید پر
موقوف ہے،اگر وہ مصلحت سمجھے تو اجازت دیدے ورنہ نہیں۔ (حاشیہ
القلیوبی ۲/۳۹۲،
الموسوعة ۱۶/۳۲۴)
(ج): ”سماجی حقوق“
قیدیوں کو عام حالات میں
اخبارات پڑھنے، ریڈیو سننے، تعلیم و ہنر سیکھنے، احباب و
اقارب سے رابطہ رکھنے اور دوسرے قیدیوں سے ملنے کی اجازت ہوگی،
البتہ اگر کسی وجہ سے حاکم وقت بعض قیدیوں کے لیے اس کو
خلاف مصلحت سمجھے تو اس پر پابندی عائد کرسکتا ہے، بعض شوافع سے اسکی
صراحت نقل کی گئی ہے۔ (دیکھئے حاشیہ القلیوبی
۲/۳۹۲، رسنی
المطالب مع حاشیہ الرملی ۲/۱۸۸،
الموسوعة الفقہیہ ۱۶/۳۲۴)
جس طرح کہ حاکم کو اس کی اجازت ہے کہ
کسی خاص مجرم کو اس کے جرم کے پس منظر میں قید تنہائی کی
سزا دے، جہاں کسی سے ملنے کی اس کو اجازت نہ ہو، فقہاء نے اس کی
بھی صراحت کی ہے۔ (المبسوط ۲۰/۹۰، فتاویٰ ابن تیمیہ
۱۵/۳۱۰،
المغنی ۸/۱۲۴، الموسوعة ۱۶/۳۱۹)
(د): ”اخلاقی امور“
فقہاء نے جرائم کے لحاظ سے الگ الگ قید
خانہ یا قید خانہ میں الگ الگ حصے بنانے کی تجویز دی
ہے، امام ابویوسف رحمة الله عليه نے اپنی کتاب ”الخراج“ میں،
باقاعدہ ایک باب اس عنوان پر قائم کیاہے، اور مجرمین کو بنیادی
طور پر تین حصوں میں منقسم کیا ہے:
۱- اہل
فجور: یعنی جن گناہوں کا تعلق اخلاقی مفاسد سے ہو۔
۲- اہل
تلصص: یعنی چوری وغیرہ کے قبیل کی چیزیں۔
۳- اہل
جنایات: یعنی ظلم و زیادتی کے ذیل کی چیزیں۔
اس طرح کی کچھ اور تقسیمات بعض
دیگر فقہاء کے یہاں بھی ملتی ہیں، ان تقسیمات
کا مقصد یہ ہے کہ قیدیوں میں جرائم پھیلنے سے روکا
جائے، اس لیے کہ جرائم کا رجحان بڑی تیزی سے ساتھ پھیلتا
ہے، اورایک طرح کا مجرم دوسری طرح کے مجرم سے بہت جلد متاثر ہونے لگتا
ہے، لیکن اگر ہر قسم کے مجرمین الگ الگ ہوں، تو دوسرے جرائم سے ان کے
محفوظ رہنے کا زیادہ امکان ہے۔ (کتاب الخراج ۱۶۱، ابن عابدین ۵/۳۷۰، الموسوعة ۱۶/۳۱۹)
* اسی
طرح اخلاقی مفاسد سے بچنے کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ مردوں
اور عورتوں کو الگ الگ رکھا جائے، تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے، بلکہ عورتوں کے
حصے کا نگراں افسر بھی کسی عورت ہی کو رہنا چاہئے،اگر اس قسم کی
عورت میسر نہ ہو تو صلاح و تقویٰ میں معروف شخص کا انتخاب
ہونا چاہئے۔ (مبسوط ۲۰/۹۰، فتاویٰ
ہندیہ ۳/۴۱۴، جواہر الاکلیل
للآبی ۲/۹۳، الموسوعة ۱۶/۳۱۷)
* کبھی
بالغوں کے ساتھ نابالغ لڑکے بھی بعض جرائم میں شریک ہوجاتے ہیں،
ایسے نابالغ لڑکوں کو قید میں ڈالا جاسکتا ہے یا نہیں؟
مالکیہ اور شافعیہ کا مسلک یہ
ہے کہ صرف تادیبی کاروائی کی جائے گی، قید میں
نہیں ڈالا جائے گا خواہ مالی معاملہ ہو یا غیرمالی،
لیکن فقہاء حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ مالی اور غیرمالی
دونوں قسم کے جرائم میں نابالغ لڑکوں کو محض تادیب و تنبیہ کے لیے
(نہ کہ سزا کے طور پر) قید میں ڈالنے کی اجازت ہے، تاکہ عام لوگ
ان کے ضرر سے محفوظ رہیں، اور ان بچوں کی تنبیہ بھی ہو،
البتہ ایسی صورت میں فقہاء نے لازم قرار دیا ہے کہ ان کو
بالغوں سے الگ ایسی جگہ پر رکھا جائے، جہاں ان کاکوئی مناسب
رہنما اور مربی موجود ہو، تاکہ وہ بالغوں کے شرسے ممکن طور پر محفوظ رہ سکیں۔
(درمختار۴/۲۵۳، فتاویٰ
ابن تیمیہ ۳۴/۱۷۹، حاشیہ
الدسوقی ۳/۲۸۰، معین
الحکام ۱۸۷، الموسوعة ۱۶/۳۱۷،۳۱۸)
”طریقہٴ احتساب“
۳- یہ
ایک حقیقت ہے کہ ثبوت جرم کے لیے اگر شواہد موجود نہ ہوں، تو
مجرم آسانی کے ساتھ اپنے جرم کا اقرار نہیں کرتا، اس کے لیے
تھوڑی سختی کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی ایک مثال
عہد نبوت میں ابن ابی الحقیق کا واقعہ ہے، جس نے ایک خزانہ
غائب کردیا تھا، اور اس کااقرار نہیں کررہا تھا نبی کریم
صلى الله عليه وسلم کے حکم پر حضرت زبیر ابن العوام نے جب اس کے ساتھ سختی
کی تو اس نے اس کا اقرار کیا۔ (رواہ البخاری، فتح الباری
۵/۳۲۸)
اسی روایت کی بنا پر
فقہاء نے مجرموں کے ساتھ فی الجملہ سختی کی اجازت دی ہے،
اوراگرچیکہ جبر واکراہ کی حالت میں اقرار معتبر نہیں ہے،
مگر متاخرین حنفیہ نے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اس کی
افادیت تسلیم کی ہے، اوراس حالت کے اقرار کو کسی نہ کسی
درجہ میں درست قرار دیا ہے، چوری کی بحث کے ذیل میں
حصکفی لکھتے ہیں:
فیقطع
اذا اقربہا مرة طائعاً واقرارہ بہا مکرہا باطل ومن المتأخرین من أفتی
بصحتہ و یحل بضربہ لیقر. (درمختار۶/۱۰۶)
شامی نے اس پر تفصیلی
بحث کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حدود کے لیے اگرچہ کہ یہ
اقرار معتبر نہیں ہے مگر دیت و تعزیر کے لیے اس کا اعتبار
کیاجائے گا (دیکھئے ردالمحتار ۶/۱۰۸،۱۰۹)
مگر یہ سختی اسی حد تک
جائز ہے جب تک وحشیانہ حد تک نہ پہنچے، اسی لیے فقہاء نے مجرموں
کے ساتھ تادیبی معاملہ کو محدود کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
انما ہو
السوط والجن (کتاب الخراج لابی یوسف ۱۳۵)
مجرم کے لیے کوڑا ہے یا قید،
اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس لیے ایسی کسی
بھی کارروائی کی اجازت نہیں دی جاسکتی جو
انسانی حدوں کو پار کرجائے اور جس سے مجرم کو شدید جسمانی نقصان
پہنچے، فقہاء نے تو قیدخانہ میں سزا کے طورپر بھی وحشیانہ
حرکتوں سے منع کیا ہے، چہ جائے کہ احتساب کے مرحلے میں۔ جبکہ
ابھی سزا کافیصلہ آنا باقی ہو۔
لہٰذا سزا کے طور پر ہو یا
اعتراف جرم کے لیے درج ذیل کاروائیوں کی اجازت نہیں
ہے:
*قیدیوں
کو دھوپ میں کھڑا کرنا * ان کے سرپر تیل
ڈالنا * داڑھی
مونڈھنا * کتے،
بچھو یا اور کوئی درندہ جانور چھوڑنا (کتاب الخراج ۱۳۵، المغنی ۷/۶۴۱، تبصرة الحکام ۲/۱۴۷، الموسوعة ۱۶/۳۲۸) اس لیے
کہ یہ خلاف شرع بھی ہے اور جسمانی نقصان کا باعث بھی۔
* قیدیوں
کو بے لباس کرنا، اس لیے کہ سترعورت ضروری ہے۔ (حاشیہ ابن
عابدین ۴/۱۳، الاحکام السلطانیہ
للماوردی ۲۳۹)
* بھوکا پیاسا
رکھنا * جسم
کے کسی حصہ کو آگ سے جلانا یا الکٹرک شاٹ لگانا * پانی
میں غوطے دینا۔ (السیاسة الشرعیة لابن تیمیہ
۱۵۲، فتح الباری
۶/۱۵۰)
* سخت ٹھنڈک میں
برف کی سلوں پرڈال دینا۔
*مسلسل جاگتے رہنے
پر مجبور کرنا اوراس کے لیے اس کی جائے رہائش میں تیز
روشنی یا تیز آواز کا انتظام کرنا، * چہرے
پر مارنا * گردن
میں ناقابل برداشت بوجھ ڈال دینا * زمین
پر لٹاکر مارنا وغیرہ۔ (فتاویٰ ہندیہ ۳/۴۱۴، الاحکام السلطانیہ
للماوردی ۲۳۹)
* قیدی
کے خاندان کو گالی دینا یا سب و شتم کرنا (بدائع الصنائع ۷/۶۴)
* ناک، کان یاجسم
کا کوئی حصہ کاٹنا یا توڑنا، یہ مثلہ ہے اور سخت ممنوع ہے، وغیرہ
(بدائع الصنائع ۷/۲۰) اور ہر وہ کام جو
خلاف شرع ہو یا جس سے جسم کو کلی یا جزوی نقصان پہنچے۔
”قیدی کو بیڑی
ڈالنا“
۴- قیدیوں
کو فرار سے بچنے کے لیے زنجیروں میں جکڑا جاسکتا ہے، ان کو
ہتھکڑی بھی پہنائی جاسکتی ہے۔ بیڑی بھی
ڈالی جاسکتی ہے، جیسا کہ حضرت عمررضى الله تعالى عنه کے سامنے ایک
ملزم کو ہتھکڑی لگاکر لایاگیا۔ (مصنف عبدالرزاق ۱۰/۲۱۷) نیز
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک ملزم کے بارے میں فرمایا
(جس پر چوری کا الزام تھا اور وہ کہتا تھا کہ میں نے اسے خریدا
ہے) فاشددہ فی السجن وثاقا ولا تحلہ حتی یاتیہ
امر اللّٰہ، اس کو قید خانہ میں مضبوط باندھ دو اور
معاملہ کی تحقیق تک نہ کھولو۔ (المحلی لابن حزم ۱۱/۱۳۱)
لیکن ایسا وقتی طور پر
کرنے کی اجازت ہوگی، ان چیزوں کو تسلسل کے ساتھ باقی
رکھنا درست نہیں، اس لیے کہ ان حالتوں میں بنیادی
ضروریات بھی پوری کرنی دشوار ہوجاتی ہے۔
فقہاء نے قیدیوں کو قضائے حاجت سے روکنے کی اجازت نہیں دی
ہے، اسی طرح ایسی تنگ جگہ میں رکھنے کی اجازت بھی
نہیں دی ہے جہاں ایک دوسرے سے بے پردگی ہو، یا وضو
اور نماز جیسی ضروریات پوری نہ کی جاسکتی ہوں۔
(الشرح الکبیر...... ۳/۲۸۲،
درمختار مع الحاشیہ ۵/۳۷۸،۳۷۹)
”قید تنہائی“
۵- حاکم کی
اگر رائے ہو تو کسی مجرم کو اس کے خصوصی جرم کے پس منظر میں قید
تنہائی دی جاسکتی ہے،
الموسوعة میں مبسوط سرخسی، ابن عابدین، فتاویٰ ہندیہ
حاشیہ دسوقی، حاشیہ قلیوبی اور دیگر
بہت سی کتابوں کے حوالے سے لکھا ہے:
ویجوز
للحاکم عزل السجین وحبسہ منفردا فی غرفة یقفل علیہ بابہا،
ان کان فی دلک مصلحة. (الموسوعة الفقہیہ ۱۶/۳۱۹)
”قیدیوں سے جبری کام لینا“
۶- (الف):
فقہاء شافعیہ وحنابلہ نے قیدیوں کو اجرت پر کام کرنے کی
اجازت دی ہے، تاکہ وہ اپنے گھریلو اخراجات یا قرض وغیرہ کی
ادائیگی کا انتظام کرسکیں۔ (الموسوعة الفقیہ ۱۶/۳۲۱ بحوالہ
رسی المطالب مع حاشیہ الرملی ۲/۱۸۸، المغنی ۴/۴۹۵، ہندیہ ۳/۴۱۸)
(ب): لیکن حنفیہ کا مسلک معتمد
اور دیگر فقہاء کی رائے یہ ہے کہ قیدیوں کو بااجرت
کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی، ورنہ قیدخانہ
کی ساری معنویت ہی ختم ہوجائے گی، قیدخانہ اس
کے لیے دوکان یا کارخانہ کی طرح بن جائے گا،اور قید کا
مقصد فوت ہوجائے گا۔ (ابن عابدین ۵/۲۷۸، فتاویٰ ہندیہ ۳/۴۱۸)
(ج) تیسری رائے جس کو کویت
کے لجنة الفقہاء نے اختیار کیا ہے کہ یہ حاکم کی صوابدید
پر موقوف ہے۔ (الموسوعة الفقہیہ ۱۶/۳۲۲)
دوسری اور تیسری رائے کا
مقتضا یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کی اگر رائے ہوتو سزایافتہ قیدیوں
سے بلااجرت جبری کام لیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ کام ان کی
طاقت سے باہر نہ ہو،اور ان کی صلاحیت اور ذوق سے ہم آہنگ ہو، البتہ جن
قیدیوں کا مقدمہ ابھی زیرسماعت ہے، ان کا معاملہ اس سے
مستثنیٰ رکھنا چاہئے۔
”ملزم اور مجرم کا فرق“
۷- جن قیدیوں
کا مقدمہ ابھی زیر سماعت ہے،اور جن کے بارے میں سزائے قید
کا فیصلہ ہوچکا ہے، قیدخانوں میں سلوک کے اعتبار سے ان میں
فرق کرنا ضروری ہے، یہی عدل کا تقاضا ہے، ورنہ سزایافتہ
اور غیرسزایافتہ کا فرق باقی نہ رہے گا۔ اسی لیے
بہت سے فقہاء نے دونوں قسم کے قیدیوں کے لیے الگ الگ قیدخانہ
یا قیدخانہ میں الگ الگ حصہ مقرر کرنے کی ہدایت کی
ہے۔ قرافی، ماوردی، زبیری اور حنابلہ کے ایک
طبقہ کی رائے یہ ہے کہ زیرسماعت ملزمین کو قید کرنے
کا اختیار صرف حاکم کو ہے، عدالت کو نہیں، عدالت صرف انہی ملزمین
کو قید کرسکتی ہے، جن کے لیے سزائے قید کافیصلہ
ہوچکا ہو، پہلی قسم کے قیدخانہ کو ”سجن الوالی“ اور دوسری
قسم کے قیدخانہ کو ”سجن القاضی“ کہا جاتا تھا، اگرچیکہ بعد میں
دونوں قسم کے اختیارات عدالت ہی کو دے دیے گئے، اور عدالت دونوں
قسم کے ملزمین کو قید کرنے کی مجازہوگی، لیکن فقہاء
کی رائے کے مطابق کم از کم دونوں کے لیے قیام اور سلوک میں
امتیاز کرنا ضروری ہے، تاکہ ظلم و زیادتی کا اندیشہ
باقی نہ رہے۔ (الموسوعة الفقہیہ ۱۶/۳۱۸، ۳۱۹، حاشیہ ابن
عابدین ۵/۳۷۸، ۴۹۹، تبصرة الحاکم ۱/۳۰۴، لسان الحکام ۲۵۱، الاحکام السلطانیہ
للماوردی ۲۱۹)
”ملزم کے قید کی مدت“
۸- زیرسماعت
قیدیوں کو فیصلہ سے قبل اتنے دنوں تک قید میں رکھنا
جوان کے اوپر عائد فرد جرم کی اصل سزاہے، درست نہیں، بعض فقہاء حنفیہ،
شافعیہ اور حنابلہ ایسے مقدمات میں جن کی آخری سزاہی
قیدہوسکتی ہو،ملزم کو قیدکرنے کی اجازت نہیں دیتے،
اس لیے کہ فیصلہ و سزا سے قبل سزا کا کوئی جواز نہیں ہے،
لیکن جو فقہاء (اور اکثر فقہاء کی یہی رائے ہے) قید
کی اجازت دیتے ہیں، بشرطیکہ ملزم مجہول الحال ہو اور صلاح
وتقویٰ میں معروف نہ ہو، ان میں زیادہ تر فقہاء نے
فیصلہ سے قبل قید کی مدت کو حاکم کی رائے پر چھوڑ دیا
ہے، مگر کچھ نے اس کی مدت ایک ماہ (رد المحتار ۶/۱۰۸) کچھ نے ایک دن، بعض نے دو یا
تین دن، اور مالکیہ نے ایک سال سے کم مقید کی ہے۔
(الموسوعة الفقہیہ ۱۶/۲۹۴، ۲۹۵)
دراصل یہ مدت عدالتی کارروائی
کو چاک و چوبند کرنے کے لیے ہے، کسی عدالت کو ہرگز یہ حق حاصل
نہیں ہے کہ اپنی غفلت و ناکامی کا بدلہ بے قصور ملزموں سے لے،
اور اپنی سست رفتار کاروائی کی بنا پر ملزموں کو برسوں جیل
میں بے یارومددگار چھوڑ دے، جبکہ اس کا امکان بھی موجود ہے کہ
ملزم نتیجتاً بے قصور ثابت ہو۔
”ملزم اگر بری ثابت ہو“
۹- اگر زیر
سماعت ملزم کو قید میں رکھا گیا، اور بعد میں عدالت نے
اسے بری قرار دیا، تو وہ زمانہٴ قید میں ہونے والی
ذہنی اذیت اور مالی نقصان کا ہرجانہ طلب کرنے کا مجاز نہیں
ہے، بشرطیکہ قیدکی مدت معروف اصولوں کے مطابق ہو، اور اس دوران
اس کے ساتھ کوئی ناروا سلوک بھی نہ کیاگیا ہو، اس لیے
کہ جس حدتک قید کی فقہاء نے اجازت دی ہے، وہ ان نقصانات کو
مدنظر رکھتے ہوئے دی ہے، اور اسی لیے ملزم کے حالات کے لحاظ سے
زمانہٴ قید میں کمی بیشی روا رکھی گئی
ہے۔
”قیدی کو رابطہ کی
اجازت“
۱۰- قیدی
کو اپنے مقدمات کے سلسلے میں وکیل سے رابطہ اور صفائی پیش
کرنے کا مکمل حق حاصل ہے، اس لیے کہ حراست کا مقصد تحقیق حال ہے، اگر
قیدی کو اپنے معاملہ میں رابطہ اور بیان صفائی کا
اختیار نہ دیا جائے تو حقیقت حاصل کیسے واضح ہوسکتی
ہے؟ بلکہ اگر قیدی پر کچھ دوسرے اور مقدمات بھی ہوں تو ان کے لیے
بھی بطور خود یا بذریعہ وکیل عدالتی کارروائی
کے لیے اس کو نکلنے کی اجازت دی جائے گی، صرف اتنی
دیر کہ زیربحث مقدمہ کی اس سے متعلق کارروائی مکمل ہوجائے۔
(درمختار مع رد المحتار ۵/۳۷۸، ۴۹۹، لسان الحکام
لابن الشحنہ ۲۵۱، تبصرة الحکام ۱/۳۰۴، المغنی ۹/۲۰۷، الموسوعة الفقہیہ
۱۶/۳۲۶)
قیدی خواتین کے شیرخوار
بچے
۱۱- خواتین
قیدیوں کو اپنے ساتھ ایسے شیرخوار بچوں کو جوماں کے بغیر
نہ رہ سکتے ہوں، جیل میں رکھنے کی اجازت ہوگی، یہی
شرعی اصولوں کا تقاضہ ہے، اس لیے کہ ماں کے جرم کی وجہ سے بچوں
کو ماں کی ممتا سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے، علاوہ ازیں
بچوں کی علاحدگی خود قیدی خواتین کے لیے بھی
مسلسل ذہنی اذیت کا باعث ہوگی، اس سلسلے میں بعض احادیث
و آثار سے کافی روشنی ملتی ہے۔
نبی کریم صلى الله عليه وسلم
نے (جنگ میں پکڑی جانے والی خواتین کے بارے میں جن
کو باندی بنالیا گیا ہو، اور ان کے ساتھ چھوٹا بچہ ہو) ارشاد
فرمایا:
* لاتولہ والدة عن
ولدہا (رواہ البیہقی، نصب الرایة ۳/۲۶۶)
ترجمہ: ماں کو اپنے بچہ سے الگ نہیں
کیاجائے گا۔
* ایک روایت
میں ارشاد گرامی اس طرح نقل کیاگیا ہے:
من فرق بین
والدة وولدہا فرق اللّٰہ بینہ وبین احبتہ یوم القیامة
(بیہقی ۹/۱۲۶، دارقطنی ۳/۶۷)
ترجمہ: جو شخص ماں کو اس کے بچہ سے الگ کرے
گا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دوستوں سے الگ کردے گا۔
* حضرت عبادة ابن
الصامت روایت کرتے ہیں کہ:
نہی
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یفرق بین
الام وولدہا فقیل یا رسول اللّٰہ (صلى الله عليه وسلم) الٰی
متی؟ قال حتی یبلغ الغلام و تحیض الجاریة. (سنن
دارقطنی ۳/۶۷)
ترجمہ: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے
ماں کو اس کے بچہ سے الگ کرنے سے منع فرمایا، آپ صلى الله عليه وسلم سے عرض
کیاگیا یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کب تک؟ ارشاد فرمایا
کہ جب تک لڑکا بالغ نہ ہوجائے اور لڑکی کو حیض نہ آجائے۔
* حضرت عمران بن حصین
رضى الله تعالى عنه کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے
ارشاد فرمایا:
ملعون من
فرق بین والدة وولدہا (حاکم ۲/۵۵، دارقطنی ۳/۶۷)
ترجمہ: وہ شخص ملعون ہے جو ماں کو اپنے بچہ
سے الگ کردے۔
* حضرت علی
کرم اللہ وجہہ روایت کرتے ہیں:
وہب لی
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم غلامین اخوین
فبعث احدہا فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یا
علي ما فعل غلامک؟ فاخبرتہ فقال ردہ ردہ. (ابوداؤد حدیث
نمبر ۲۶۹۶، ترمذی حدیث
نمبر ۱۲۸۴، حاکم ۲/۵۵، دارقطنی ۳/۶۶)
ترجمہ: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے
مجھے دو غلام عطا فرمائے جو دونوں بھائی تھے، میں نے ان میں سے
ایک کو فروخت کردیا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ایک دن
غلاموں کے بارے میں دریافت فرمایا تو میں نے بیچنے
کے بارے میں بتادیا تو آپ نے فرمایا کہ واپس کرو۔
* ایک مشہور
حدیث سے بھی اس پر روشنی پڑتی ہے، رسول اللہ صلى الله
عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
من لم یرحم
صغیرنا ولم یوٴقر کبیرنا فلیس منا (مسند
احمد۱/۲۵۷، ترمذی حدیث
۱۹۲۱)
ترجمہ: جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور
ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔
ان احادیث کا مقتضا یہ ہے کہ قیدی
خواتین کو ان کے شیرخوار بچوں سے الگ نہ کیا جائے۔
* * *
--------------------------
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 02 ، جلد: 93 صفر 1430 ھ مطابق فرورى 2009ء